Waseem khan

Add To collaction

08-May-2022 لیکھنی کی کہانی -غلط فہمی قسط12


غلط فہمی
از مشتاق احمد
قسط نمبر12

امجد جلدی آ گیا تھا آج۔ماریہ لان میں کرسی پر بیٹھی موسم سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ 
آج وہ خوش تھی کیوں کے کوئی اسکا بنا تھا جسکو وہ اپنا کہ سکتی تھی اور وہ اپنا بھی ایسا کہ ہر دکھ سکھ میں شامل ہونے والا۔ 
اسکی خوشیوں کی وجہ تھا امجد۔ اسکی تکلیفوں کو دور کرنے والا شخص اب اسکا اپنا تھا۔ 
ماریہ کو پیار ہو گیا تھا اس سے ۔موبائل ماریہ کے ہاتھ میں تھا جس کی سکرین پر موجود امجد کی تصویر کو دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔
 امجد پیچھے کھڑا ہو کر اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کو دیکھ رہا تھا۔
 آج وہ دل سے خوش ہوا تھا یہ دیکھ کر کے ماریہ بھی اس سے محبت کرتی ہے۔ 
اسکو سوچتی ہے۔ 
سامنے کرسی پر بیٹھ گیا۔ کب اے آپ۔ ماریہ کو اس کے آنے کا پتہ ہی نہیں چلا تھا جب تم مسکرا رہی تھی اس وقت ۔
ہنستے ھوے بہت اچھی لگتی ہو تم۔ اس کے ہاتھوں کو بوسہ دیا ماریہ شرما گئی۔
 آپ کے لئے کچھ لاتی ہوں۔ دس منٹ بعد وہ کافی پی رہے تھے۔ ماریہ مجہے تمسے محبت ہے تب سے جب پہلی بار اپنے گھر دیکھا تھا۔ 
خوش ہو نہ میرے ساتھ۔ ماریہ نے اسکے ماتھے پر کس کی۔ بہت پیار کرنے لگی ہوں۔شام کو ماریہ کا دل گھبرا رہا تھا سوچ بھی رہی تھی لیکن وجہ بھی نظر نہیں آیی۔ 
امجد کے ساتھ رہی بہت باتیں کی امجد نے اسکو یہاں آنے سے لے کر اب تک کا بتایا۔ماریہ کا دل نہیں کر رہا تھا کہ وہ امجد سے نظریں ہٹاے ۔رات بھی ایک یادگار کے طور پر گزر گئی۔ 
امجد آج نہ جاؤ میرا دل نہیں کر رہا۔ ماریہ دل تو میرا بھی نہیں کر رہا پر کام بھی تو کرنا ہوتا ہے نہ۔ میں کل کی طرح جلدی آ جاؤں گا تمہیں پتہ بھی نہیں لگے گا۔ دو گھنٹہ بعد کچھ بندے اے۔ آپ کو ہمارے ساتھ جانا ہے۔
 ماریہ نے پوچھا کس نے بھیجا آپ کو۔ چپ کر کے چلو۔ماریہ نے اپنے گھر کے بندوں کو دیکھا جو چپ دیکھ رہے تھے۔ اگر یہ دشمن ہوتے تو تھوڑی اندر ہوتے چپ کر کے چل پری۔ 
ضیاء باہر ہی تھا جب اسنے دیکھا کہ کچھ بندے ماریہ کو لے کر جا رہے ہیں تو کچھ شک ہوا سوچ آیی کہ وہ ان کے ساتھ چپ کر کے جا رہی ہے جب کے شکل سے یہ لوگ سہی بھی نہیں لگ رہے ضیاء ان کے پیچھے چل پڑا چھپ کر کے آخر ماجرا کیا ہو سکتا ہے۔ 
ایک شاندار بنگلہ میں لے جایا گیا۔ امجد نظر کیوں نہیں آ رہا ماریہ سوچ رہی تھی۔ ویلکم سویٹی ۔ہم اپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ وہ انگلش میں بولا۔ آپ کون ہیں اور مجہے کیوں یہاں لایا گیا ہے؟ 
بات کھڑا ہو کر کرو گی کیا بیٹھو۔ شاجین نے اپنے پاس کا اشارہ کیا ماریہ کو غصہ آیا وہ فاصلے پر جا بیٹھی۔ تمہیں میرے ساتھ رہنا ہے ۔میرا دل تم پر آ گیا ہے۔ شاجین جس چیز کو پسند کر لے وہ اسکی ہو جاتی ہے۔شاجین بولا۔ 
امجد کو گھر سے پتہ لگا شاجین کا تو غصہ سے بھر گیا اور فورا روانہ ہوا ادھر۔ ضیاء اندر داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا  اپنے ساتھیوں کے ساتھ۔ 
اسکو پتہ تھا سیکورٹی سخت ہے یہاں پر لیکن اس کو پتہ نہیں کویئ قوت اندر لے جانا چاہتی تھی۔ ماریہ کو شاجین کی بات سے غصہ آ گیا تم ہوتے کون ہو میری قیمت لگانے والے۔
مسٹر جاؤں گی پر تمہارا ناپاک ارادہ پورا نہیں ہونے دوں گی۔ ہاہاہا ٹکر کی ہے یہ لڑکی۔ مزہ تو اب اے گا۔ وہ ہنسا۔ 
کچھ بندے ضیاء کو پکڑ کر لاے ۔ سر یہ اندر گھسنے کی تاک میں تھا۔  اوہ ضیاء۔ تم ارے تمسے تو بہت سے حساب رهتے ہیں۔میں حیران ہوں تم زندہ ہو ابھی تک۔لگتا ہے پیار نہیں تھا بیوی سے۔
 پیار ہے تو زندہ ہوں ۔ضیاء جل کر بولا۔اور میں بھی حیران ہوں کہ تم زندہ ہو۔ مجہے تو زندہ ہونا تھا آخر کو انڈر ورلڈ کا بادشاہ جو ہوں۔ ہاہاہا۔ 
ویسے گفٹ مل گیا تھا تمہیں۔ شاجین ہنس کر ضیاء سے بولا۔ کونسا گفٹ۔ ضیاء حیرانی میں تھا۔ تمہاری بیوی والا ۔اسکو مار کر اسکے مردہ جسم کا گفٹ۔ 
جو انسان پیارا ہوتا ہے اس کی موت پر دوسرے انسان کی موت کا گفٹ۔ ضیاء کے سر پر بمب پھٹا تھا یہ سن کر۔ تو کیا تمنے کیا تھا سب۔ غصہ سے ضیاء کی رگیں تن گیں۔ ضیاء کو شرم آ رہی تھی ماریہ کی طرف دیکھنے سے۔ 
اسنے ماریہ کی طرف دیکھا تو کیا میں غلط تھا۔ میں نے کتنا برا کیا اس لڑکی کے ساتھ۔ اسکا جینا عذاب بنا دیا یہاں تک کہ اسکو ملک بدر ہونا پڑا میری وجہ سے۔
 یہ کیا کر دیا میں نے۔ ایک ایجنسی کا بندہ تھا ٹرینر تھا پھر کیوں ہوا یہاں تو غلطی کی سزا موت لکھی تھی میں نے ماریہ کے لئے پر اسکا مستحق میں اب خود کو سمجھ رہا ہوں۔ 
سب غلط فہمی کا نتیجہ تھا۔ صفا ہنس رہی ہوگی مجھ پر ۔میں نے اسکی بہن جیسی دوست کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا۔ معاف کر دینا صفا مجہے اب جب کہ می قاتل تک پہنچ چکا ہوں مر کر بھی تمہارا بدلہ لوں گا جو ظلم کر بیٹھا ماریہ پر اسکا حساب بھی دوں گا۔
 میرا خود سے وعدہ ہے۔ ماریہ آنکھیں بند کر کے بیٹھی تھی۔باہر والا کیا جانتا کہ ایک طوفان ہے اس کے اندر جو پھٹنے کے قریب تھا۔  میری بہن کا قاتل یہ تھا۔ 
غصہ میں کانپ رہی تھی۔صفا میں تمہارے قاتل کے ساتھ وہی کروں گی جو اسنے تمہارے ساتھ کیا۔ مار ڈالوں گی اس ذلیل انسان کو جسکو جینے کا حق نہیں تھا۔ 
خون کا بدلہ خون ہے۔ معاف تو کرنا مجہے نہیں آتا۔ غصہ میں امجد اندر داخل ہوا۔سب کچھ دیکھا اسنے۔ ضیاء بول رہا تھا۔ 
 تمہارا میرا معاملہ تھا میری بیوی کو کیوں مارا خود کو بندوں سے چہراتے بولا۔  جس طرح تمنے میرے مال کو لیا ۔حساب تو لینا تھا نہ اور تمنے مجہے بھی تو پکڑا تھا۔
 اگر میں نہ بھاگتا تو تمہاری صفا کی طرح اوپر ہوتا۔ میں حساب رکھنے کا عادی نہیں ہوں مسٹر ضیاء۔ شاجین ہنسا۔ 
یہ سب کیا ہے باس۔امجد جو سب دیکھ اور سن رہا تھا اور ضبط کر رہا تھا اب بولا۔  یہ میری کزن بھی ہے اور بیوی بھی۔آپ نے کیوں اٹھوایا اسکو۔ 
ماریہ نے اس دن کے بعد سے لباس چینج کر لیا تھا کیوں کہ اسکو احساس ہوا تھا کہ خطرے میں کیسا رہنا چاہیے۔ یہ تو حفاظتی اقدام تھا نہ کہ نمائش۔ 
شاجین بولا  پر بچے اب یہ مجہے پسند آ گی ہے۔
 آپ کو اندازہ ہے کہ آپ کیا بول رہے ہیں بیوی کبھی کوئی دیتا ہے کسی کو۔امجد نے مٹھی بھینچی تھی غصہ میں۔
  شاجین کو کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں۔جو میرا دل کرتا ہے چاہتا ہے میں وہی کرتا ہوں۔ مت بھولو کہ تم میرے ملازم ہو۔اور نوکر اپنے حاکم سے بحث نہیں کرتے۔ اوکے۔ 
 چھوڑ دیں میری بیوی کو۔ امجد کو غصہ تھا پر ضبط کر رہا تھا۔ 
یہ میرے ساتھ رہے گی اب تم ایک عورت کے لئے مجھ سے غداری کرو گے امجد۔شاجین غصہ میں آ گیا۔ 
 باس غداری نہیں ہے مجہے محبت ہے اپنی بیوی سے۔امجد نے اسکو قائل کرنے کا سوچا۔  امجد کیا تم اس کے لئے کام کرتے ہو ۔ماریہ نے شاجین کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ 
ماریہ کو دکھ ہو رہا تھا کیوں پیار کیا اس سے۔ اپنی زندگی کا ساتھی بنا چکی تھی وہ امجد کو۔ 
ہاں یہ میرا بندہ ہے ۔میرے لئے کام کرتا ہے۔ سب کچھ کرتا ہے جو کہوں قتل بھی کرتا ہے۔ شاجین چبا کر بولا اور ماریہ کو شاطرانہ طور پر بد زن کر گیا۔ 
سچ بھی تو یہی ہی تھا جو وہ بولا تھا۔ امجد سر جھکا کے کھڑا تھا۔ تو کیا میں ایک مجرم کی بیوی ہوں امجد۔ماریہ رونے لگی تھی۔
 ماریہ میں یہاں مجبور تھا ۔امجد نے صفائی دی۔ کیسی مجبوری امجد کہ تم گناہ کی دلدل میں چلے گئے۔ 
ماریہ کو چھوڑ دو شاجین۔ اب ضیاء بولا۔ 
اوہ ایک لڑکی اور دو دو عاشق۔
 ہاہاہا۔

   0
0 Comments